تصوف یا تزکیہ باطن کی اہمیت
اسلام Ú©ÛŒ تمام تعلیمات کا سرچشمہ قرآن Ùˆ سنت ہیں جس Ú©ÛŒ تعلیم مجلس نبوی میں دی جاتی تھی۔چونکہ اسلام Ú©Û’ ابتدائی دور میں اہل اسلام اپنے اصلی مرکز میں موجود تھے جن Ú©ÛŒ تعداد بھی اس وقت اتنی زیادہ نہ تھی جتنی بعد میں ہوگئی اسی لیے درس گاہ Ù…Ø+مدی میں تمام علوم یعنی تفسیر، Ø+دیث، فقہ اور تزکیہ باطن Ú©ÛŒ تعلیم دی جاتی تھی۔ Ø+ضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہی مفسر تھے، وہی Ù…Ø+دث تھے، وہی فقیہ تھے اور وہی مرشد بھی تھے۔آنے والے دور میں جب اسلام جزیرہ عرب سے نکلا اور ایک عالمی Ø+یثیت اختیار کر گیا تو اس Ú©ÛŒ تعلیمات Ú©Ùˆ علمائے دین Ù†Û’ الگ الگ شعبوں میں بانٹ دیا۔قرآن پاک Ú©ÛŒ تفسیر بیان کرنے والے مفسر کہلائے، Ø+دیث Ú©ÛŒ خدمت کرنے والے Ù…Ø+دث کہلائے اور جو فتوی اور فقہ Ú©Û’ کام میں Ù„Ú¯Û’ ان Ú©Ùˆ فقیہ کہا جانے لگا۔اسی طرØ+ تزکیہ باطن اور اصلاØ+ نفس Ú©Û’ کام Ú©Ùˆ Ù„Û’ کر چلنے والے صوفیا کہلائے۔اور اس علم Ú©Ùˆ تصوف یا طریقت کہا جانے لگا۔ اسی Ú©Ùˆ قرآن Ùˆ Ø+دیث میں تزکیہ اور اØ+سان کا نام دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قَدْ اَفْلَØ+ÙŽ مَنْ زَکَّھَا ÙˆÙŽ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّھَاo (الشمس -Û¹)
بے شک جس نے نفس کو پاک کیا وہ کامیاب رہا ور جس نے اس میلا کیا وہ ناکام رہا۔
اسی طرØ+ فرمایا:
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَ لَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍo (الشعراء- ۸۹، ۸۸)
اس دن نہ مال کام آئے گا نہ اولاد مگر جو شخص اللہ تعالیٰ Ú©Û’ پاس پاک دل Ù„Û’ کر آیا۔پہلی آیت میں تزکیہ باطن Ú©Ùˆ فلاØ+ کا سبب اور دوسری میں سلامتی قلب Ú©Ùˆ آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اسی پاکی اور اصلاØ+ قلب کا نام اصطلاØ+ اور عرف میں تصوف ہے۔
جس طرØ+ قرآن مجید میں ظاہری اعمال جیسے نماز، روزہ، Ø+ج، زکوۃ وغیرہ کا Ø+Ú©Ù… موجود ہے اسی طرØ+ باطنی اعمال کا بھی Ø+Ú©Ù… ہے۔ جس طرØ+ قرآن مجید میں کئی بار ÙˆÙŽ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ ÙˆÙŽ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ آتا ہے اسی طرØ+ یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوا یعنی اے ایمان والو! صبر کرو، اور وَاشْکُروا لِلّٰہِ یعنی اللہ کا شکر بجا لاؤ بھی موجود ہے۔اگر ایک مقام پر کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامَ اور لِلِّہ عَلَی النَّاسِ Ø+ِجُّ الْبَیْتَ میں مسلمان پر روزے اور Ø+ج فرض ہونے کا ذکر ہے تو دوسرے مقام پر وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَشَدَّ Ø+ُبًّا لِلّٰہِ میں مسلمان کا Ù…Ø+بت الہی میں سرگرداں ہونے کا ذکر موجود ہے۔جہاں اِذَا قَامُوْا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی میں نماز میں سستی منافقوں Ú©ÛŒ علامت بتائی گئی ہے اسی Ú©Û’ ساتھ ہی یُرَآئُوْنَ النَّاسَ Ú©Û’ ذریعے ریاکاری Ú©ÛŒ برائی بھی موجو د ہے۔
اگر ظاہری اعمال Ú©ÛŒ مثال بدن Ú©ÛŒ طرØ+ ہے تو باطنی اعمال Ú©ÛŒ مثال روØ+ Ú©ÛŒ سی ہے۔ گویا تزکیہ باطن یا تصوف دین Ú©ÛŒ روØ+ ہے جس کا کام نفس Ú©Ùˆ رذائل یعنی برے اخلاق جیسے شہوت، غضب، Ø+سد، Ø+ب دنیا، Ø+ب جاہ، بخل، Ø+رص، ریا، عجب، غرور سے پاک کرنا اور فضائل یعنی پسندیدہ اخلاق جیسے توبہ، صبر، شکر، خوف، رجا، زہد، توØ+ید، توکل، Ù…Ø+بت، شوق، اخلاص، صدق، زبان Ú©ÛŒ Ø+فاظت، مراقبہ، Ù…Ø+اسبہ Ùˆ تفکر سے آراستہ کرنا ہے۔ تاکہ توجہ الی اللہ یعنی مقام اØ+سان پیدا ہوجائے جس Ú©ÛŒ طرف سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ مشہور Ø+دیث جبرئیل میں اشارہ فرمایا ہے۔ اس میں جبرئیل علیہ السلام Ù†Û’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ اØ+سان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ فرمایا:
(اØ+سان یہ ہے کہ) تم اللہ Ú©ÛŒ عبادت اس طرØ+ کرو گویا تم اس Ú©Ùˆ دیکھ رہے ہو اور اگر ایسانہ کر سکو تو پھر (یہ دھیان رکھو کہ) وہ تو تمھیں دیکھ رہا ہے۔ (صØ+ÛŒØ+ بخاری)
دین اسلام میں عبادت صرف نماز، Ø+ج، روزہ اور زکوٰۃ کا نام نہیں بلکہ مسلمان کا ہر وہ کام جو وہ اللہ Ú©ÛŒ رضا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ بتائے ہوئے طریقے پر کرتا ہے وہ اس Ú©Û’ Ø+Ù‚ میں اجر Ùˆ ثواب کا ذریعہ بنتا ہے یہاں تک کہ اس کا کھانا پینا، سونا جاگنا، روزی کمانا، اپنی فطری ضروریات Ú©Ùˆ پورا کرنا اگر دین Ú©Û’ بتائے ہوئے طریقے پر کرے تو اس Ú©Û’ لیے قرب الہی کا ذریعہ بنتا ہے۔الفتØ+ الربانی Ú©ÛŒ مجلس Û²Û² Ø+ضرت شیخ فرماتے ہیں:
’’دنیا میں تصرف کرنے کے متعلق جب نیت درست ہوتی ہے تو وہ آخرت ہی بن جاتی ہے۔ ‘‘
تصوف اور مقصد تصوف Ú©Û’ متعلق Ø+ضرت شیخ فرماتے ہیں:
’’تصوف لفظ صفا سے بنا ہے نہ کہ لفظ صوف (اون) سے۔ سچا صوفی وہ ہے جو اپنے تصوف (یعنی صفائی) میں سچا ہو۔اس کا دل مولا Ú©Û’ سوا تمام چیزوں سے صاف ہوتا ہے۔یہ ایک ایسی چیز ہے جو Ú©Ù¾Ú‘ÙˆÚº کا رنگ بدلنے، چہروں Ú©Ùˆ زرد کرنے، کندھوں Ú©Ùˆ اکٹھا کرنے، بزرگوں Ú©ÛŒ Ø+کایتیں بیان کرنے اور تسبیØ+ پر انگلیاں چلانے سے Ø+اصل نہیں ہوتی۔ بلکہ Ø+Ù‚ تعالیٰ Ú©ÛŒ طلب میں سچا بننے، دنیا سے بے رغبت بننے، مخلوق Ú©Ùˆ دل سے باہر نکالنے اور اپنے مولا عز Ùˆ جل Ú©Û’ سوا ہر کسی سے بے تعلق ہوجانے سے Ø+اصل ہوتی ہے۔‘‘ (الفتØ+ الربانی مجلس Û²Ûµ)
غنیۃ الطالبین، باب آداب المریدین میں فرماتے ہیں:
’’تصوف کے معنی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے ساتھ صدق اور اس کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا تصوف ہے۔‘‘
مروجہ تصوف میں ایک چیز بیعت ہے۔ بیعت کا مقصد یہ ہے کہ مرید اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ شیخ Ú©ÛŒ تعلیمات پر عمل کرے گا اور شیخ اس بات کا ذمہ لیتا ہے کہ دین Ø+Ù‚ Ú©Û’ مطابق مرید Ú©ÛŒ تعلیم Ùˆ تربیت کرے گا۔ اس کا مقصدیہ ہرگز نہیں کہ شیخ قیامت میں بخشش کا ذمہ دار ہوں جائے گا۔ صØ+ÛŒØ+ مسلم میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ اپنی بیٹی Ø+ضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمادیا:
اے فاطمہ! (Ù…Ø+مد Ú©ÛŒ بیٹی) میرے مال سے جو چاہو Ù„Û’ لو مگر میں اللہ Ú©Û’ یہاں بچا نہیں سکتا۔
Ø+ضرت شیخ Ù†Û’ بھی اس خیال Ú©ÛŒ تردید فرمائی ہے۔ جلاء الخواطر مجلس Û³Û¸ میں فرماتے ہیں:
’’تم کہتے ہو کہ میرا شیخ فلاں ہے اور فلاں Ú©Û’ ساتھ رہا ہے اور میں فلاں Ú©Û’ پاس Ø+اضر ہوا ہوں اور میں Ù†Û’ فلاں عالم سے کہا۔ یہ سب چیزیں عمل نہ کرنا ہے۔ اس سے Ú©Ú†Ú¾ نہیں بنتا۔‘‘
(جاری ہے)​